سنہ 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد انڈیا اور پاکستان کی فوجیں آمنے سامنے تھیں۔ جب انڈیا نے پاکستان پر حملے کا ماحول بنایا تو افغان طالبان کی قیادت نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے سارے اختلافات بھول کر پاکستانی فوج کے ساتھ شانہ بشانہ لڑیں گے۔
جنگ ٹل گئی، اِس کے چند سال بعد جب ممبئی حملوں کے ملزم اجمل قصاب کو پھانسی دی گئی تو طالبان نے ایک بار پھر انڈیا سے بدلہ لینے کی دھمکی دی۔ پھر طالبان اپنی آزادی کی جنگ میں مصروف ہو گئے۔ جبکہ اُن کے پاکستانی طالبان بھائی پاکستان کو جمہوریت اور امریکہ کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے ہماری چھاؤنیوں، مسجدوں پر حملے کرتے رہے۔
اس جنگ میں ہمارے دل بٹے ہوئے تھے۔ ایک طرف ہمارا ایمان تھا جس کے مطابق طالبان حق پر تھے، غاروں سے اُتر کر آنے والے پاکباز مجاہد جو ہمیں اصلی اسلام سکھانے آئے تھے اور دوسری طرف ہماری ریاست اور اس کی فوج جو ہماری اور ہمارے بچوں کی حفاظت کی واحد ضمانت تھی۔ ہمارے فوجی طالبان کے ٹھکانوں پر اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر حملہ کرتے تھے تو جوابی حملوں میں طالبان بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے تھے۔
ہمارا کنفیوژ ہونا فطری بات تھی۔ پھر ہم نے اپنے دلوں کی تسلی کے لیے اچھے اور بُرے طالبان میں تفریق شروع کی۔ مذاکرات کیے، امن معاہدے ہوئے۔ ہم نے سوات وادی اُن کے حوالے کر دی کہ چلو یہاں پر چھوٹی سے خلافت قائم کر لو۔ موجودہ وزیراعظم شہبار شریف نے طالبان سے اپیل کی کہ بس پنجاب پر حملے نہ کرو۔ طالبان نے سکول جاتی بچیوں کے منھ پر فائر کھولے، جب ملالہ بچ گئی تو بھی ہم نے کہا کہ یہ طالبان کر ہی نہیں سکتے کیونکہ اگر وہ کرتے تو پھر زندہ کیسے بچتی۔